50

گندم سکینڈل: کوئی سرکاری اہلکار، سیاسی شخصیت کو تحقیقات کے لیے طلب نہیں کیا گیا، انکوائری کمیٹی کی وضاحت

کیبنٹ ڈویژن کے سیکریٹری کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیٹی نے کہا کہ گندم کی مبینہ حد سے زیادہ درآمد کے معاملے میں کسی حکومتی یا سیاسی عہدیدار کو تحقیقات کے لیے طلب نہیں کیا گیا۔

اتوار کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق گندم کی درآمد کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی انکوائری کمیٹی نے اپنا پہلا اجلاس منعقد کیا جس میں دستاویزات اور اعدادوشمار کا جائزہ لیا گیا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ انکوائری کمیٹی کی وزیراعظم شہباز شریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

اس میں مزید کہا گیا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ تکمیل کے مراحل میں ہے تاہم ابھی تک ابتدائی رپورٹ کسی کو پیش نہیں کی گئی۔

یہ پیشرفت ان رپورٹس کے سامنے آنے کے بعد سامنے آئی ہے کہ انکوائری کمیٹی سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سابق وزیر خزانہ شمشاد اختر اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو طلب کر سکتی ہے۔

ایک دن پہلے، کاکڑ نے گندم کی درآمد میں کسی قسم کی غلطی سے انکار کیا اور کہا کہ وہ اہم فصل کی درآمد کی تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ “اگر گندم کی انکوائری کمیٹی نے مجھے طلب کیا تو میں اس کے سامنے پیش ہوں گا۔”

انکوائری کمیٹی، جس کی سربراہی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران افضل کررہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے تشکیل دی تھی۔ اسے ڈیمانڈ سے زیادہ گندم کی درآمد اور فروری کے مہینے کے بعد ایل سی کھولنے کی اجازت دینے کے لیے ذمہ داریاں طے کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

مارچ کے مہینے کے دوران نجی شعبے کو 57.192 ارب روپے کی 6.91 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ تاہم، کاکڑ نے کہا کہ ان کے دور میں گندم کی درآمد کے لیے کوئی نیا قانون متعارف نہیں کروایا گیا تھا اور ان کی حکومت نے صرف “نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی” کہ وہ بنیادی فصل کی درآمد کریں۔

وفاقی حکومت مشکل میں پھنس گئی ہے کیونکہ بلوچستان اور پنجاب کی حکومتیں ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے کسانوں سے گندم خریدنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ اب تک فصل کی ضرورت سے زیادہ درآمد کو قرار دیا جا رہا ہے۔

صوبائی حکومتوں کی جانب سے گندم کی عدم خریداری کی وجہ سے گندم سرکاری نرخ سے کم قیمت پر فروخت ہو رہی ہے جو کسانوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔

ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ کو آگاہ کیا تھا کہ گزشتہ سال 28.18 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی تھی اور نگراں حکومت نے مزید 2.45 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ اضافی گندم کی درآمد سے قومی خزانے کو 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں